۱۱ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۲۱ شوال ۱۴۴۵ | Apr 30, 2024
مولانا تقی عباس رضوی

حوزہ/ ہندوستان کی سیاست و معیشت کی مایوس کن صورتحال اور در پیش چیلنجز کے پیش نظر اس ملک کو فرقہ واریت اور بنیاد پرستی سے زیادہ مذہبی رواداری امن اور ہم آہنگی کی ضرورت ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،حجۃ الاسلام و المسلمین مولانا تقی عباس رضوی کلکتوی، نائب صدر اہل بیتؑ فاؤنڈیشن نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ قرآن مجید پر بیجا تنقید اور رحمت العالمین کے خلاف بے بنیاد پروپیگنڈا آسمان پر تھوکنے کے مترادف ہے۔

انہوں نے اضافہ کرتے ہوئے کہا کہ ابوجہل کی "الف" سے وسیم رشدی کی "ی"تک جس نے بھی اسلام، قرآن اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہٖ کی شان اقدس میں بے ادبی اور ہرزہ سرائی کی وہ داخل دشنام ہوکر رہ گیا۔

انکا کہنا تھا کہ آج ہندوستان ہی نہیں بلکہ ساری دنیا میں وسیم جیسے مرتد و ملعون کی جو ذلت رسوائی ہو رہی ہے وہ ناقابل بیان ہے اس نے آسمان کی طرف منھ اُٹھا کر تھوکنا چاہا ہے، اس بے وقوف کو یہ نہیں معلوم کہ یہ تھوک خود اُس کے ہی منھ پر گر ر ہا ہے

موجودہ دور ہر دور سے زیادہ امن اور ہم آہنگی کا متقاضی ہے

مولانا نقی عباس رضوی نے کہا کہ ہندوستان کی سیاست و معیشت کی مایوس کن صورتحال اور در پیش چیلنجز کے پیش نظر اس ملک کو فرقہ واریت اور بنیاد پرستی سے زیادہ مذہبی رواداری امن اور ہم آہنگی کی ضرورت ہے۔

مزید اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اس ملک میں ہر اس شخص کو فی الفور کیفرکردار تک پہنچایا جائے جو اس کی جمہوریت پر سیاہ داغ لگانا اور ملک کے سیکولر اور جمہوری اقدار کو پامال کرنا چاہتے ہیں۔

یہ بات زور دیتے ہوئے کہا کہ محض نعرے سے ’ایک بھارت شریشٹھ بھارت‘ کا خواب ہرگز پورا نہیں ہوگا یہ خواب اسی وقت شرمندہ تعبیر ہوگا جب ملک کے 130کروڑ عوام میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور امن و آشتی کا جذبہ ہوگا۔

وزیر اعظم نے ہندوستان کو علم دانش کامرکز اور وشوگرو بنانے کا عہد تو کیا ہے مگر! یہ کام کیسے انجام پذیر ہوگا؟

موصوف نے کہا کہ مذاہب اور فرقوں کے درمیان اخوت اور ہم آہنگی کو فروغ دے کر یا پھر پسماندہ ذہنیت، طاقت کے نشے میں چور قہقہے مارتے انتہا پسند عناصر کو کھلا چھوٹ دے کر؟

آج پورا ہندوستان وسیم اور نرسنگھانند سرسوتی کے خلاف سراپا احتجاج ہے مگر انہیں سلاخوں کے پیچھے کرنے کے بجائے گھوم گھوم کر پریس کانفرنس کی چھوٹ دے رکھی ہے؟

انکا کہنا تھا کہ نہ ہی ملک کا قانون کسی بھی مذہب کی مقدس شخصیتوں کی اہانت کی اجازت دیتا ہے اور نہ ہی دین اسلام، اس لئے کہ اسلام' امن و شانتی ، انسانی ہمدردی اور رواداری کا علمبردار ہے اور مذہبی جذبات کے احترام کے سلسلہ میں ہندوستان اور اسلام کی ایک روشن تاریخ رہی ہے تو پھر یہ کونسی سیاست اور دیانت ہے کہ ایسے عظیم الشان ملک میں ایک دریدہ دہن شخص وسیم اور نرسنگھانند جیسے شرپسند لوگوں کو جو ایک عرصے سے اس بیہودہ حرکت کا مرتکب ہو رہے ہیں وہ نہ صرف مسلمانوں کی دل آزاری کر رہے ہیں بلکہ ان کی یہ حرکت ملک کے امن ویکجہتی کو بھی نقصان اور آئین ہند کو بھی ٹھیس پہنچانے والی ہیں...

انہوں نے کہا کہ اس سنگین جرم پر حکومت وقت غور کرے،کہیں یہ لوگ ہندوستان دشمن قوتوں کے آلہ کار تو نہیں جو اس ملک کے ترقی کے سفر کو شدت پسندی، نفرت اور فرقہ واریت کا بیچ بوکر روکنا چاہتے ہیں؟

لہٰذا ایسے انتہا پسندوں کی نفرت انگیز حرکتوں پر قانونی کارروائی کرے، اور جلد از قرار واقعی سزادے تاکہ پھر سے یہ تاریخ دہرائی نہ جاسکے ورنہ....

ایک آنسو بھی حکومت کے لیے خطرہ ہے

تم نے دیکھا نہیں آنکھوں کا سمندر ہونا

تبصرہ ارسال

You are replying to: .